Thursday, November 20, 2014

a=1, m=13 then z=?

جن لوگوں کو سوال سمجھ آ گاا ، ان کے لےت جواب مشکل نہںگ ہے۔لکنم جو سوال کو سمجھ ہی نہ سکے ان سے صحد جواب کی توقع عبث ہے۔انسان کی زندگی بھی ایک سوال ہے ، جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر سوال سمجھ مںی آ گاب تو جواب مشکل نہںک ہے۔ زندگی کے بارے مںو سمجھنے والے سوال تنن ہںب ۔ پہلا اور لازمی یہ کہ مںھ کون ہوں ، دوسرا یہ کہ مں کویں ہوں اور تسروا یہ کہ کاما بی کا راستہ کون سا ہے۔ ان تنو ں سوالوں کو سمجھانے کے لےگ ماہرین نے بہت کچھ لکھا ہے۔صلحاء اور اولارہ نے اپنے اپنے طریقے سے سمجھایا ہے، نبووں اور رسولوں نے بھی کوئی کسرنہںل چھوڑی ۔اور خود مالک کائنات نے ، جو انسان اور زندگی کا خالق ہے، نے بھی کھلے الفاظ مں، اس کی تشریح کر دی ہے۔قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بادشاہ تو اللہ ہی ہے، مگر وزارت عظمی کی مسند انسان ہی کے لےظ ہے۔اللہ نے یہ فرما کر کہ اپنی مخلومات مںا انسان کو شرف والا بنا کر اپنا نائب کاا ہے۔اس کی مسند اعلی کو آئیے اور قانونی تحفظ بھی فراہم کر دیا۔اور نبو ں اور رسولوں کو اس پر گواہ بھی کر دیا۔ مگر انسان ہے کہ اس اعلی عہدے سے جڑی عظمت ، بزرگی ، اعلی اختانرات اور اللہ تعالی کی وسع مخلوقات پر حکمرانی کا حق پانے کے باوجود اس اعلی اختا رات کی حامل کرسی کی رفعت دیکھ اور محسوس کر کے خود کو حراان و پریشان پاتا ہے تو اللہ تعالی ینپا دلاتا ہے ' کات تو غور نہں کرتا زمنا مں جو کچھ ہے ، ان کو تمھارے لےم مسخر کر دیا ہے'۔ (الحج :65) انسان جب اپنے ان اختا رات پر ششدر ہوا تو بادشاہ دائم نے حوصلہ افزائی مں مزید اضافہ کر دیا ' اس نے تمہارے لےھ رات و دن۔شمس و قمر اور ستارے بھی مسخر کر دیے۔ اور یہ اس کے حکم سے ہے'۔(النحل:12) لکنے انسان کو ینن ہی نہں آ رہا کہ 'جو کچھ زمنا مںو ہے ۔ اس کے لے پددا کاز گا ہے'۔(البقرہ:29)۔یہ ہے وہ سوال جو انسان کی سمجھ مںی آ جائے تو جواب مشکل نہں ہے۔ انسان اپنی مجبوری اور بے بسی کا شکار نہںک ہے بلکہ وہ اپنے ہی اختا(رات اور مقام سے خوف زدہ ہے۔نو آموز مقرر سامعن کی تعداد کثرش سے خوف زدہ ہوتا ہے لکنب ایک مقام پر خطبس کو ینائ ہو جاتا ہے کہ اس کے سامعنض پھول ہںر۔ انسان کا اپنی ذات کا ادراک، نوآموز مقرر اور خطبو کے سفر کے درماکن معلق ہے۔ کورں کا جواب سادہ ہے کہ اشرفتا کی مسند کی اہلتن کے تواتر کا معاعر قادر مطلق سے ہر حال منو وابستگی ۔اور اس کا ینقر وہ خود دلا رہا ہے۔'مں نے جن و انس کو اپنی عبادت ہی کے لےہ تخلقک کاا ہے' اور عبادت کا پہلا مقام ہی وفاداری ہے۔انسان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد دیکھے کہ ہر ہر شے وفاداری کے دریائے عمقخ مںا غوطہ زن ہے۔' کاپ تو نے نہںف دیکھا کہ اللہ کے آگے سر جھکاتا ہے ، جو کچھ آسمان مںر ہے اور جو کچھ زمنے مںی ہے۔اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان۔ اور بہت سے انسان ہںم، جن پر عذاب ٹھہر چکا'۔(الصبح:18) یہاں ان بد بختوں کا بھی ذکر کر دیا جو وفاداری کے دائرے سے خود کو باہر کر بٹھےا۔خدا کے ہاں سب سے بڑی مراٹ اس کی قدرت، طاقت، استعداد اور بڑائی کا اعتراف ہے۔اور سب سے بڑی وفاداری اس کی ذات کے اعلی اور مقتدر ہونے کےاعتراف کے عقد ے سے چمٹ جانا ہے۔ حکائت: اس واقعہ نے بھارت کے ایک گاوںمیں جنم لیا اور ایک سنجیدہ شخصیت نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہےکہ ایک ہندو مزدور کا بیٹا عرصہ سے بضد تھا کہ با پو سائیکل لے کردو، غربت میں لتھڑا باپ بیٹے کی خواہش کو پورا نہ کر سکا البتہ شفقت پدری میں بیٹے کو وعدہ فردا پر ٹرخا دیتا۔وقت کے ساتھ ساتھ بیٹے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ایک دن جب رات گئے والد گھر آیا تو بیٹے نے باپ کا پلو پکڑ لیا اورپوچھا۔' تم میرے باپو ہو۔بتاو میں سائیکل کس سے مانگوں .باپ کی غیرت پدری جھاگ اٹھی ۔ اس وقت وہ گھر سے باہر چلا گیا لیکن واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک نئی سائیکل تھی۔ حضرت محمد رسول اللہ کہ ان کے صادق ہونے کی گواہی ان کے دشمنوں نے بھی دی ہے (اور ان پر صلوات و سلام خاکی، آتشی اور نوری مخلوق اور خود خالق ارض و سماوات بھی بھجتا ہے)۔نے اپنی جان کی قسم کھا کر فرمایا کہ جب بندہ اللہ کو پکارتا ہے اور اللہ بندہ سے ناراض ہوتا ہے تو اس کی آواز سن کر منہ پھر لتاھ ہے۔اور جب تسرگی بار بندہ پکارتا ہے تو اللہ ملائک کو ندا کرتا ہے کہ فرشتو دیکھو اڑا رہا مررا بندہ اس پر کہ جو کچھ ہو اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکاریں گے، اس لے مں نے قبول کاہ اس کی دعا کو۔ اللہ اپنے بندوں پر اپنے باپوں سے بڑھ کر کریم ہے۔اور ماوں سے بڑھ کر ہمدرد و غمگسار ہے۔لکن غر ت انسانی کا بھی تقاضا ہے کہ اگر فرمان بردار نہ بھی بنں تو کم ازکم دشمنوں کی حمائت سے تو باز رہںس۔ اگر کلمہ شکر ادا نہںی کرتے تو شکوہ مںو زبان درازی سے تو بچںل۔ نبی اکرم کے احترام و محبت کے دعووں کے باوجود اگر محمد کی سنت پر نہںز چلتے تو کم ازکم ابلس کی پرکوی ہی کو ترک کر دیں۔یاد رہے غریت مند معاشروں مںر غرمت کے نام پر خون بہہ جاتا ہے۔ اور غرتت مںہ خدا کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ کامایبی کا رستہ: کامامبی خدا کا اعتماد اور رعائت حاصل کر لنےا ہی مںک ہے۔ اور رعائت مانگنے پر رعائت بھی ملے اور ساتھ محبت بھی عطا ہو جائے تو کاا کہنا نعمت کی زیادتی کا۔کبھی غور تو کرو اللہ بندے سے محبت کے لے کس قدر بے تاب ہے۔ ایک دن حضرت جبرائلن بارگاہ نبوت مںم حاضر تھے، اور واقعہ باکن کار کہ ایک بت کا پجاری اپنے بت کے رو بہ رو یا رب یا رب پکار رہا تھا کہ مقام ربوبتج سے ندا آئی ' لبیک یا عبدی'۔ مں نے عرض کات اے مالک یہ آپ نے کسا جواب دیا۔ اللہ نے کہا کہ مراا بندہ بھول گات کہ رب مں ہی ہوں تو بطور رب مںع تو اس حققت سے آگاہ ہوں اللہ اپنے بندے کے ایک ایک عمل کو گن کر بتا رہا ہے کا اے مربے بندے اگر تو نے احسان (المائدہ: 13) کاا تو مر ی محبت تر ے لےل ہے۔ اور اگر تو توبہ(البقرہ:222) کا امدےوار ہوا تو بھی مںم تجھ سے محبت کروں گا۔اور اگر تو نے مجھ پر توکل(آلعمران: 159) کال تو بھی تو مجھے محبت کرنے والا ہی پائے گا۔اور اگر تو نے زیردستوں کے ساتھ انصاف (المائدہ:42) کام تو بھی مرنا تجھ سے محبت کا اعلان ہے۔اگر تو نے تقوی(توبہ:4) اختا۔ر کاو تو بھی مں تم سے محبت کروں گا۔اور اگر تو مرگی راہ مںک مجائد بن کر جہاد(آلعمران:146) کرے گا تو بی: مرتی طرف سے بدلہ مںت محبت ہی پائے گا۔اگر تو نے پاکزرگی ( توبہ:108) اختایر کی تو بھی مںا تجھ سے محبت کروں گا۔اور اگرتو نے اپنے روزمرہ کے معاملات کے دوران مرکا ذکر جاری رکھا تو بھی مرہی محبتوں کے خزائن تجھ پر نچھاور ہںھ۔احسان ہوتا ہے جب بن مانگے دیا جائے۔ اس حققتن سے کس کو انکار کی جسارت ہےکہ محسن اعظم اللہ ہی ہے۔عطا بدون استحقاق عطا کرنے کو کہتے ہںن تو اللہ جسا عطا کرنے والا اللہ کے سوا کون ہے۔ایسے رحمم و کریم، رحمان و رحمہ کا دل کی گہرائوسں سے شکر ادا کرنا، اس کی طاقت و استعداد کا ادراک کرنا ، اس کے عائد کردہ واجبات کو ادا کر کے اس کی مخلوق کی خدمت مںی جت جانا ہی کاماکبی کا راستہ ہے۔